Sunday, March 24, 2013

ارتھ ڈے

کل ساری دنیا میں ارتھ ڈے کے زریعے انرجی کی بچت کا پیغام پہنچا یا گیا۔جیو ٹی وی پر کئی دنوں سے کمپین چل رہی تھی کہ 23 مارچ کو رات ساڑھے آٹھ سے ایک گھنٹے کے لئے بجلی کی بچت کریں اور غیر ضروری بتیاں بجھا دیں ۔رات کو جیو پر پاکستان کے مختلیف شہروں کی سرکاری عمارتوں کے بتیاں بجانے کے مناظر دیکھائے جا رہے تھے،عوامی طور پر اس کا کتنا ردعمل ہوا پاکستان میں نہ ہونے کی وجہ اس کا تو مجھے علم نہی مگر یہ مناظر دیکھتے ہوئے مجھے دو سال پہلے یہاں جاپان کے وہ دن یاد آگئے جب زلزلے اور سونامی کے بعد جاپانی حکومت نے بجلی کی قلت کے سبب لوڈ شیڈینگ اور بجلی بچانے کا اعلان کیا ہوا تھا اور یہاں کی قوم نے اس کا اتنا مثبت جواب دیا کہ پورا ملک جو روشنیوں میں جگمگاتا تھا شام ہوتے ہی اندھیروں میں ڈوب جاتا تھا،شاپنگ سینٹر اسی طرح گاہکوں سے بھرے ہوتے تھے مگر جہاں چار چار لفٹیں لگی ہوئی تھیں وہاں ایک لفٹ استمعال کی جاتی تھی،اسکیلیٹر کے بجائے سیڑھیاں پر اترنا چڑھنا کیا جاتا تھا
مگر مجال ہے کہ کوئی شکایت کرے ،گھروں میں لوگوں نے جو بجلی کے پلگ مستقل لگے ہوتے ہیں ان تک کو نکال دیا ۔
        اس مثبت ردعمل پر ایک دو دنوں میں ہی حکومت کو لوڈشیڈینگ کا فیصلہ واپس لینا پرا۔ دوسری طرف جب ہماری حکومت نے  گرمیوں کے موسم میں بجلی کی بچت کے لئے صرف ایک گھنٹے شام کو جلدی بازاروں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا تو تاجروں نے  ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔واقعی قوم نعروں سے نہی عمل سے بنتی ہیں۔

4 comments:

کوثر بیگ said...

بہت اچھی بات کے طرف اشارہ کیا اور بہت اچھی طرح سمجھایا ۔شکریہ

ڈاکٹر سیف قاضی said...

اچھا تجیہ ہیں لیکن یہ بات بھی زہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر ملک کے اپنے حلات ہوتے ہیں۔
انڈیا اور پاکستان دو ایسی جمہوریتیں ہیں جہاں جمہوریت مفلوج ہے ( انڈیا کی حالت بہتر ہے ) سیاسی لیڈروں کو ہر طرح کی تن آسانیاں اور آرائشی میسر ہیں اور عوام بے چاری مفلوک الحال ۔۔۔
ان حالات میں عوام سے توقع رکھنا بیکار ہے ۔
سیف قاضی
بزم اردو ڈاٹ نیٹ

DuFFeR - ڈفر said...

ان جاپانیوں کے گھر کم از کم ایک بلب تو جلتا ھو گا
یا پھر ایک پنکھا
نہ گرمی سے بچے مرتے ھوں گے
نہ پانی کی موٹر چلانے کا رونا پڑا رھتا ھو گا
موبائل بھی چارج کر ھی سکتے ھوں گے

پاکستانی قوم کا رونا بالکل بجا ھے

Unknown said...

آہ، دل جلتا ہے یہ سب دیکھ کر اور اپنی قوم کا دوسری قوموں سے موازنہ کر کے۔

عوام حکرانوں کی بات اس وقت تک نہیں مانتے جب تک وہ حکرانوں کو اپنا ہمدرد نہ سمجھیں۔ ہمارے لیڈر قربانی ہمیشہ عوام سے مانگتے ہیں، اور خود عیش کرتے ہیں۔ اس عالم میں جو وہ کہتے ہیں تو عجب نہیں کہ لوگ اس کا الٹ کر کے اپنے لاشعور میں پلنے والی نفرت کا اظہار کریں، چاہے اس میں ان کا اپنا نقصان ہی کیون نہ ہو رہا ہو۔

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں قوم بن کر جینا نہیں آیا۔ ہر بندہ یہی کہتا ہے، کہ ایک میرے کرنے سے کیا ہو گا؟


پھر آپ نے جیو ٹی وی کی مثال دی۔ اس وقت عام آدمی کی نظر میں میڈیا والوں کی عزت بہت کم رہ گئی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ لاکھوں کی تنخواہ لینے والے یہ لوگ خود بھی 'چور' طبقے کا حصہ ہیں۔ میں اپنے محلے میں جس سے بات کرتا ہوں، وہ میڈیا والوں کو بھی، غلط یا درست، ایجنٹ، غدار اور ڈاکو کہتا ہے۔ ان کی کون سنے گا؟

میرا بلاگ

Post a Comment