سنتے آئے ہیں کہ ووٹ ایک امانت ہے اس کا صحیح استعمال کریں ،استعمال کرنے کا موقع تو بچاری قوم کو 65سالوں میں ملا ہی صرف پانچ چھ بار ہے،اب پھر انتخابات آرہے ہیں اور اسی بات کا شور غوغا ہے،ایک چینل سے تعلیم کو ووٹ دو،پاکستان کو ووٹ دو کے اشتہار چلائے جارہے ہیں ۔سروے اور پچھلے ڈیٹا یہ بتاتے ہیں پڑھے لکھے افراد کی اکثریت ووٹ دینے سے کتراتی ہے اور امانت میں خیانت کی مرتکب ہوتی ہے ،کچھ لوگوں کی یہ سوچ ہے کہ پڑھ لکھ کر آدمی بزدل ہو جاتا ہے مگر میرا یہ خیال ہے کہ پڑھ لکھ کر وہ تجزیہ کرنے،سمجھنے اور سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے ۔وہ ووٹ کے استعمال سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کے منشور اور اس کے امیدواروں کا تجزیہ کرتا ہے اور پھر یہ سمجھتا ہے کہ انھیں ووٹ دے کر تو امانت میں خیانت کرنا ہے۔
جب وہ تجزیہ کرتا ہے تو سیاسی جماعتوں کا منشور صرف نعرے بازی کے لئے اور امیدوار پچھلے انتخابات میں جسے گالیاں دیتا تھا اب انہی کا امیدوار بناہوا نظر آتا ہے اور امیدواروں کے معیار کا اندازاہ تو ہمیں آجکل اچھی طرح ہوہی گیا ہے۔چونکہ علم اسے مزہبی تنگ نظری،برادی،رشتہ داری،لسانیت اور تنگ نظر قوم پرستی سے آزاد کردیتا ہے تو کوئی امیدوار اسکے زاویے میں نہی بیٹھتا اور وہ ووٹ کو امانت سمجھتے ہوئے اس کو حفاظت سے اگلے انتخابات تک محفوظ کر دیتا ہے۔